PN 18 02 2013
Monday, 8th Rabi uth Thaanee 1434H 18/02/2013 N0: PN13019
Hizb ut-Tahrir Wilayah
Only the Khilafah will not tax the poor
Hizb ut-Tahrir Wilayah
Economic strength is not possible either through Democracy or Dictatorship. Both forms of ruling are corrupt as they allow revenues and spending to favor the kafir colonial powers and their agents who come to rule within
Under World Bank and IMF supervision,
As long as this corrupt system remains the situation will worsen, no matter who comes to power. This corrupt system can only produce such failure as it is designed to neglect the affairs of the people and this is why all those who seek power in this system are also calling for increased taxation.
Unlike Capitalism Islam does not rely on taxation on income and consumption as virtually the sole means to generate revenue. Its revenue generation is based on accrued wealth beyond the basic needs or upon actual production. Even when the Khilafah does tax, it is with stringent conditions that are based upon accumulated wealth, so it does not penalize poor and under privileged who are unable to secure their basic needs. And this is asides from the huge revenue that the state will generate from state owned and publicly owned enterprises such as energy resources, machinery and infrastructure manufacture. Industry will thrive in the Khilafah. It will not be strangled by taxes for all manner of crucial inputs, from energy to machinery. Instead, the state will generate revenue from profits of the trade and accrued trading merchandise. This allows the businesses to focus on production without fetters, whilst circulation is ensured through their giving of revenues from their profits or accrued wealth. In Islam, the taxation is not based on consumption of agricultural inputs, but on production from the land, which enables the farmer to maximize the production, without being slowed down by over-expensive inputs.
Note: To see complete policy and its relevant articles of the constitution for the Khilafah state please go to this web link:
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
Media Office of Hizb ut-Tahrir in
پیر 08 ربیع الثانی، 1434ھ 18/02/2013 نمبر:PN13019
حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ظالمانہ ٹیکس اور اخراجات کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی
صرف خلافت ہی غریب پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کرے گی
حزب التحریر ولایہ پاکستان نے ٹیکس اور اس سے حاصل ہونے والی رقم کو خرچ کرنے کے حوالے سے مندرجہ ذیل پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے جس میں واضح طور پر یہ دیکھایا گیا ہے کہ اسلام کی محصول (Revenue) اور اخراجات (Expenditure) کی پالیسیاں معاشی استحکام اور خوشحالی کا باعث بنیں گی۔
معاشی استحکام جمہوریت اور آمریت کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں نظامِ حکمرانی کرپٹ ہیں کیونکہ یہ استعماری طاقتوں اور پاکستان کے حکمران بننے والے ان کے ایجنٹوں کے مفاد کو پورا کرنے والی محصول اورا خراجات کی پالیسیاں بنانے کی اجازت دیتے ہیں۔ سرمایہ داریت، چاہے وہ جمہوریت یا آمریت کسی بھی شکل میں پاکستان میں نافذ ہو، نجکاری کے ذریعے ریاست اور عوام دونوں کو عوامی اثاثوں سے حاصل ہونے والے بہت بڑے محاصل کے ذخیرے سے محروم کر دیتی ہے جیسا کہ تیل،گیس اور بجلی۔
ئی۔ایم۔ایف (I.M.F) کے زیر نگرانی آمدنی اور اشیأکی خریداری اور ان کے استعمال پر بہت بڑی تعداد میں ٹیکسوں کی بھر مار نے پاکستان کی معیشت کا گلا گھونٹ دیا ہے اور کل حاصل ہونے والے محاصل (Revenue) میں ان ٹیکسوں کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔ حکومت نے 11-2012 میں صرف انکم ٹیکس کی مد میں 730,000 ملین روپے اکٹھے کیے جو 03-2002 میں حاصل ہونے والے کل محاصل کے برابر ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ ملازمت پیشہ افراد پر ٹیکس کا بوجھ بڑھتا گیاہے جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیاہے۔ اس کے علاوہ 13-2012 کے بجٹ میں حکومت نے انکم ٹیکس کی مد میں اکٹھی ہونے والی رقم کا ہدف 914,000 ملین روپے رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کل محاصل میں صرف سیلز ٹیکس کاحصہ 9 فیصد بڑھ کر 43 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اس سیلز ٹیکس کی وجہ سے لوگوں کے لیے ادویات، خوراک اور زراعت اور صنعت کی پیداوار میں استعمال ہونے والے خام مال کی خریداری اس حد تک تکلیف دہ بن گئی کہ ان کے لیے معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا اور اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا ناممکن بن گیا۔ حکومت نے 12-2011 میں جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں 852,030 ملین روپے اکٹھے کیے تھے اور 13-2012 کے بجٹ میں اس کا ہدف 1,076,500 ملین روپے ہے۔
جب تک یہ کرپٹ نظام چلتا رہے گا چاہے کوئی بھی حکومت میں آ جائے صورتحال مزید خراب ہی ہوگی۔ یہ کرپٹ نظام اسی قسم کی خرابی کو ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ اس کو بنایا ہی اس طرح گیا ہے کہ وہ عوام کی ضروریات سے غفلت برتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جواس نظام میں اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اس بات کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جائے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی طرح اسلام آمدن اور اخراجات پر ٹیکس کو محاصل کے حصول کا بڑا ذریعہ نہیں بناتا۔ اس کے محاصل کی بنیاد بنیادی ضروریات اور چند آسائشوں کو پورا کرنے کے بعدبچنے والی فاضل دولت اور اصل پیداوار ہے۔ خلافت صرف سخت شرائط کے ساتھ ہی ٹیکس لگا سکتی ہے اور وہ بھی صرف اخراجات کے بعد جمع ہونے والی دولت پر لگتا ہے لہذا ان لوگوں پر ٹیکس لگ ہی نہیں سکتا جو غریب ہیں یا اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کرسکتے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ایک تو ریاست خلافت عوامی اور ریاستی اثاثوں، جیسے توانائی کے وسائل، بھاری مشینری کے اداروں سے بہت بڑی تعداد میں محاصل حاصل کرسکے گی۔ خلافت میں صنعتی شعبہ تیزی سے ترقی کرے گا۔ صنعتی پیداوار کے لیے درکار اشیاء جیسے مشینری اورتوانائی پر مختلف قسم کے ٹیکس لگا کر صنعتی شعبے کو مفلوج نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ریاست تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے محاصل حاصل کرے گی۔ اس عمل کے نتیجے میں کاروباری حضرات کو بغیر کسی رکاوٹوں کے پیداوار پر توجہ مرکوز کرنے کا بھر پور موقع میسر ہوگا اور وہ اپنے منافع یا جمع شدہ دولت پر حکومت کو محاصل دیں گے۔ اسلام میں محصول زرعی پیداوار کے لیے درکار اشیاء پر ٹیکس لگا کر حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں سستے خام مال کی وجہ سے کاشتکار کو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ وہ پیداوار میں اضافہ کرے۔
نوٹ : اس پالیسی دستاویز اور اس سے متعلقہ ریاست خلافت کی آئینی دفعات کو دیکھنے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm