PN 01 04 2013
Monday, 20th Jamadi-ul-Awwal 1434H 01/04/2013 N0: PN13034
Hizb ut-Tahrir issued policy regarding the role of Men and Women in a Muslim Society
Khilafah will raise the status of women based on Islam
Hizb ut-Tahrir Wilaya
Laws related to men and women can not come from the West or from existing un-Islamic Eastern traditions in our society. The correct view of man and woman and their roles in respect to each other within the family and society is essential for the building of a strong and stable society. The Khilafah will nurture the family unit, forming the firm foundations of an Islamic society. The relationship between man and woman is based on their view of each other as humans, not one where the physically intimate aspect of the relationship is dominant. Islam views the woman as an honour that must be protected. In Islam man and woman's physical attraction and their need for each other is addressed through marriage. Marriage removes the need for people to commit zina and is encouraged at a young age. Marital life is one of tranquillity; and the couple should live together as companions. The guardianship (qawwamah) of the husband over the wife is a guardianship of care and not ruling. The Islamic Khilafah state does not restrict the woman to the home and the work of wife and mother. The women are a fully participating member of society, she has full access to be educated and to work and carry out political activity. Women will be appointed in civil service and positions in the judiciary except the court of injustices. She can elect members of the Ummah’s council, and be a member herself, and she can participate in the election of the Head of State and in giving him the pledge of allegiance.
Islam’s history is full of examples of women who were active in taking care of the Ummah's affairs, and their restrictions came only when the Khilafah was destroyed and replaced by secular Nation States ruled by oppressive rulers, whether in democracies, dictatorships or monarchies.
Note: To see the complete policy and relevant articles of the constitution for the Khilafah state, please go to this web link:
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
Media Office of Hizb ut-Tahrir in
اتوار، 20جمادی الاول، 1434ھ 01/04/2013 نمبر:PN13034
حزب التحریر نے مسلم معاشرے میں مرد و عورت کے کردار کے حوالے سے پالیسی جاری کر دی
خلافت اسلام کی بنیاد پر عورت کے عزت و وقار میں اضافہ کرے گی
حزب التحریر ولایہ پاکستان نے معاشرے میں مرد اور عورت کے کردار اور ان کے درمیان تعلقات کے حوالے سے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظریہ حیات مغربی لبرل ازم کی ترویج کرتا ہے جس میں خاندان کے ادارے کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ مسلم حکمرانوں نے مغربی اقدار کو مسلم معاشروں میں رائج کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے وہ کسی بھی مسلم معاشرے کے لیے خطرناک ہے جو اسلامی اقدار اور مرد و عورت کے درمیان خوشگوار تعلقات کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ مغربی نقطہ نظر کے مطابق مرد و عورت کی زندگی کا سب سے اہم مقصد جنسی تسکین سے لطف اندوز ہونا ہے۔ اس سلسلے کو مرد و عورت کے آزادانہ میل میلاپ اور گھٹیہ ٹی وی پروگراموں، فلموں، اشتہارات، ماڈلنگ، فیشن میگزینز کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے کو اسکولوں اور کالجوں میں کافی شاپ کلچر، میلوں اور موسیقی کے پروگراموں کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔ شخصی آزادی نے مغربی معاشرے میں مرد اور عورت کے درمیان باہمی تعاون کے جذبے کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے اور انفرادیت یعنی خود غرضی بالاتر ہو گئی ہے اس طرح دو مخالف جنسوں کے مابین تعاون کی جگہ جنگ کی سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اس غلط نظریہ نے معاشرے میں عدم استحکام اور افسردگی پیدا کی ہے جس کا شکار مرد، عورت اور بچے سب ہی ہو رہے ہیں اور روایتی خاندانی اکائی کو تباہ کر دیا ہے۔
مرد اور عورت کے درمیان تعلق کے لیے درکار قوانین نہ تو مغرب سے درآمد کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی بنیاد غیر اسلامی مشرقی روایات ہو سکتی ہیں۔ ایک مضبوط اور مستحکم معاشرے کی تشکیل کے لیے خاندان میں مرد اور عورت کے ایک دوسرے کے حوالے سے کردار سے متعلق صحیح نظریے کا وجود انتہائی ضروری ہے۔ خلافت خاندان کی اکائی کا تحفظ اور اسے فروغ دے گی جس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو گا۔ مرد اور عورت کے باہمی تعلق کی بنیادان کی ایک دوسرے کے لیے فطری کشش نہیں ہوگی بلکہ ان کا یہ نظریہ ہو گا کہ وہ دونوں انسان ہیں۔ اسلام عورت کو عزت و احترام کا مقام دیتا ہے جس کی حفاظت فرض ہے۔ اسلام میں مرد اور عورت کی ایک دوسرے میں موجود فطری کشش اور ایک دوسرے کے ساتھ کی ضرورت کو نکاح کے ذریعے حل کیا گیا ہے۔ نکاح لوگوں کو زنا کے گناہ اور جرم سے محفوظ کر دیتا ہے اور اس بات کی ترغیب دی جاتی ہے کہ جوان ہوتے ہی نکاح کر لیا جائے۔ ازدواجی زندگی اطمینان کی زندگی ہوتی ہے، میاں بیوی کا رہن سہن (میل جول) ساتھیوں (دوستوں) کا ہو تا ہے۔ مرد کی سربراہی عورت کی دیکھ بھال کے لحاظ سے ہو تی ہے حکم چلانے کے لیے نہیں۔ اسلامی ریاست عورت کو نہ توصرف گھر تک محدود کرتی ہے اور نہ ہی ماں اور بیوی کے کردار کے علاوہ کوئی اور کردار ادا کرنے سے روکتی ہے۔ عورت بھی معاشرے کی ایک مکمل رکن ہوتی ہے اور اس کے معاملات میں اپنا پورا پورا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کو تعلیم حاصل کرنے، نوکری کرنے اور سیاست میں حصہ لینے کے تمام مواقع میسر ہوتے ہیں۔ عورت کو ریاست میں ملازم مقرر کرنا جائز ہے، قاضی مظالم کے علاوہ قضاء کے دوسرے مناصب پر فائز ہو سکتی ہے۔ وہ مجلس امت کے اراکین کو منتخب کر سکتی ہے اورخود بھی اس کا رکن بن سکتی ہے۔ خلیفہ کے انتخابات میں شریک ہو سکتی ہے اور خلیفہ کی بیعت کر سکتی ہے۔
اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین امت کے امور کی نگہبانی میں انتہائی متحرک تھیں اور ان کے کردار پر بندش اس وقت عائد کی گئی جب خلافت کا خاتمہ ہوا اور سیکولر قومی ریاستوں کو قائم کیا گیا جن پر ظالم لوگ حکمران بنا دیے گئے چاہے وہ جمہوری تھے یا آمر یا بادشاہ۔
نوٹ: اس پالیسی کی تفصیلات اور قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے اس ویب سائٹ لنک کو دیکھیں۔
http://htmediapak.page.tl/policy-matters.htm
میڈیا آفس حزب التحریر ولایہ پاکستان