PR 18 07 2015 CMO
Issue No: 1436 AH / 059 Thursday, 14th Shawwal 1436 AH 30/07/2015 CE
Press Release
America Consolidates its Agents in Iran by Manufacturing a Fake Victory for them which Represents the Heading of their Agency in the Coming Stage
After the farcical theatrics that continued for months and then concluded with marathon sessions that the parties pretended were extremely difficult. The negotiators left Vienna chanting shouts of victory and jubilation describing what they had arrived at with Iran in respect to the Iranian Nuclear problem as a historic event despite the ‘writing already being upon the wall’ because what had been expected to happen happened. This is whilst the sessions represented nothing more than dust in the eyes and indeed it was clear that the negotiations were between America and Europe more than they were negotiations with Iran. This was in the case where Iran was not even as eager as America in respect to the stance of Iran coming out with the image of strength and as the victor.
And so in this was the ‘Great Satan’ became the ‘Great Friend’ and this reflects a transition of sorts in respect to the relationship of the “butcher” that existed between the Iranian and American regimes since before Obama’s term. There is no need here to repeat what we have already repeated on more than one occasion of the Iranian rulers implementing American policy in Afghanistan, Iraq, Syria, Lebanon and Yemen. What is new is that it is now possible for the rulers of Iran to be open in their treacherous role under the cover of ‘divine victory’ claimed where the Iranian media spreads propaganda in respect to ‘a thunderous defeat to international arrogance’. As for the general masses in Iran then they will never stop to pause at the scandal that the rulers of Iran have finally accepted that the Iranian People’s Revolution against the former Dictator Shah Mohammed Reza Pahlavi had represented a historical mistake. This is because the Shah who had been drowning up to his ears in his agency to Britain was falsely accused of being an American agent and under the slogan of ‘Death to America’ and ‘The Great Satan’, the true reality was covered up which is that America was behind the action to bring him down and to bring the regime of Khomeini in his place. Therefore the general masses in Iran, after having disbelieved in the empty slogans of Khomeini’s revolution, are now only concerned about their daily material interests and this is after having suffered living hardships due to the western sanctions within the context of the country’s resource being diverted in the service of the American policy in the region and being instrumental in the work to prevent the establishment of the Khilafah State upon the path of the Prophethood and in creating a series of clashes and wars that brings it into the region whilst it will not leave until it has been demolished.
As such the nuclear deal came to announce to the world the ‘legitimization’ of the relationship of “the Butcher” which constricted the American movement and chained the Iranian rulers as a result of the continuous European pressures and sanctions which attempted to diminish the Iranian danger preventing Iran from threatening the European influence in the region which Europe has considered for a long time to be its back yard. It is expected after the lifting of the sanctions and the pumping of more than 150 billion dollars into the Iranian treasury that it will increase the appetites of the rulers of Iran to become the boss in the local issues and cases under the blessing of the ‘Great Satan’.
So just as Nixon embarked on a visit to China in the past it appears that Obama is committed to visiting Tehran to consecrate the new ‘Mut’ah marriage’ (marriage of pleasure) whilst the leaders of Iran do not shy away from launching alongside the super power in suppressing the Ummah’s efforts to break free from the western hegemony. What we witness occurring in Syria is the clearest of evidences in respect to the dirty role of the Iranian rulers.
O Muslims: After the danger of this international policy which the American administration is proceeding upon with its followers in the Islamic region has become evident to you, it is obligatory for everyone in all of the Islamic lands, to stand in opposition to the agents and traitors from Rouhani to Bashar to Al-Abadi to Sisi to the Iranian party in Lebanon, as one single man to abort their plans, which they aim to annihilate the Ummah as a whole, in addition to its aspirations for unity and to be freed from them, are made to fail. Therefore the American plans were and still remain to strike the Muslims against one another using their wealth and weapons to implement its aims. So is there an alert ear or a conscious heart to listen and act?
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
“O you who have believed, respond to Allah and to the Messenger when he calls you to that which gives you life. And know that Allah intervenes between a man and his heart and that to Him you will be gathered”
[8:24]
The Central Media Office of Hizb ut Tahrir
18/07/2015 ہفتہ، 02 شوال، 1436ھ نمبر1436 AH / 059 :
امریکہ نے ایران میں اپنے ایجنٹوں کو مضبوط کرنے کے لئے ان کے لئے نام نہاد کامیابی گھڑی تاکہ آنے والے دنوں میں وہ اس کے مفادات کے لئے کام کرسکیں
کئی مہینوں تک جاری رہنے والے رسواکن ڈرامے اور پھر طویل ترین اجلاسوں کے بعد اس کے اختتام کا اعلان کر کے طرفین کے زعماء نے اس کو ایک بہت ہی مشکل مرحلہ قرار دینے کا تاثر دیا۔ مذاکرات کاروں نے ویانا سے واپسی پر کامیابی کے نعرے لگاتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ایٹمی مسئلے پر ایران کے ساتھ جس معاہدے پر پہنچے ہیں وہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے، حالانکہ "دیوار پر پہلے ہی لکھا جاچکا تھا "کیونکہ وہی ہوا جس بات کی توقع تھی۔ یہ اجلاس صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے تھے بلکہ یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ امریکہ کے مذاکرات دراصل یورپ کے ساتھ ہو رہے تھے نہ کہ ایران کے سا تھ کیونکہ امریکہ کو ایران سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ ایران اپنے موقف کے حوالے سے مضبوط اور کامیاب ابھر کر سامنے آئے۔
اور اس طرح "شیطان اکبر" اب "سب سے بڑا دوست" بن گیا، اس کا مطلب "سفاک" کے ساتھ تعلقات کی نوعیت میں معمولی تبدیلی ہے جو اوباما کے عہد سے پہلے سے ایرانی اور امریکی حکومتوں کے درمیان استوار تھے۔ ہم یہاں یہ دہرانا نہیں چاہتے کیونکہ ہم اس کو ایک بار سے زیادہ بیان کر چکے کہ ایرانی حکمرانوں نے ہی افغانستان، عراق، شام، لبنان اور یمن میں امریکی پالیسیوں کو نافذ کیا۔ اب نئی بات صرف یہ ہے کہ ایرانی حکمران خیانت پر مبنی اپنے درپردہ کردار کا "خدائی مدد" کے نام پر برملا اظہار کریں گے جس کا پروپیگنڈہ کرتے ہوئے ایرانی میڈیا "عالمی طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے" کو کامیابی سے تعبیر کر رہا ہے۔ جہاں تک ایرانی عوام کا تعلق ہے وہ صرف ایرانی حکمرانوں کے اس رسوائے زمانہ کردار پر غور ہی نہیں کریں گےبلکہ وہ یہ اعتراف کر لیں گے کہ سابق ڈکٹیٹر رضا شاہ پہلوی کے خلاف ایرانی عوام کا انقلاب تاریخی غلطی تھی۔ شاہ کے بارے میں جو کہ مکمل طور پر برطانیہ کے غلامی میں ڈوبا ہوا تھا یہ جھوٹ بولا گیا تھا کہ وہ امریکہ کا ایجنٹ ہے اور "مرگ بر امریکہ" اور "شیطان بزرگ" کے نعرے تخلیق کرنے کا مقصد اس پر پردہ ڈالنا تھا کہ امریکہ ہی نے شاہ کو برطرف کرنے اور خمینی کو اقتدار میں لانے میں پس پردہ کردار ادا کر رہا ہے۔ لہٰذا اب ایران کی عوام کی جانب سے خمینی انقلاب کے خالی خولی نعروں کو مسترد کر دیے جانے کے بعد محض اپنی روزمرہ کی ضروریات کی فکر ہے اور ایسا اس وقت ہوا جب بین الاقوامی پابندیاں لگیں، ملکی وسائل کو خطے میں امریکی پالیسی کو کامیاب کرنے اور نبوت کے طرز پر خلافت کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے ایرانی عوام تنگدستی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ ایرانی حکمرانوں نے خطے کو ایسے رسہ کشی اور خانہ جنگ میں جھوہک دیا ہے جس سے وہ اس وقت تک نہیں نکلے گا جب تک کہ وہ تباہ و برباد نہ ہو جائے۔
ایٹمی معاہدے کو دنیا کے سامنے اس سفاک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے ایک "جواز" کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اس معاہدے سے پہلے امریکہ ایران تعلقات نے خطے میں امریکی مفادات کے حصول کے لئےامریکہ کی حرکت کو مقید کیا ہوا تھا اور پے درپے یورپی دباؤ اور پابندیوں کی وجہ سے ایرانی حکمرانوں کو بے بس کر دیا تھا جو خطے میں یورپی بالادستی کے سامنے ایرانی خطرے کو ختم کرنا چاہتے تھے کیونکہ یورپ خطے کو اپنے گھر کا باغیچہ سمجھتا آ رہا ہے۔ اس بات کی توقع ہے کہ پابندیاں ہٹانے اور 150 ارب ڈالر ایرانی خزانے میں آنے کے بعد ایرانی حکمران "شیطان بزرگ" کے آشیر باد سے خطے کے علاقائی مسائل میں خودسری اور سرپھیر کا مظاہرہ کریں گے۔
جس طرح ماضی میں امریکی صدر نیکسن نے چین کا دورہ کیا تھا، ایسا نظر آ رہا ہے کہ اوبا ما بھی نیا "متعہ" کرنے کے لیے طہران جائے گا جس کے بعد ایرانی حکمران امت کی جانب سے مغربی غلبے سے جان چھڑانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگائیں گے۔ شام میں ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ایرانی حکمرانوں کے گندے کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اے مسلمانو! امریکی انتظامیہ اور اسلامی خطے میں اس کے آلہ کاروں کی اس خطرناک پالیسی کے واضح ہو نے بعد یہ آپ پر فرض ہے کہ آپ سب مل کر ہر جگہ ان ایجنٹوں اور خائنوں کا راستہ روکیں خواہ یہ ایجنٹ روحانی ہو یا بشار، عبادی ہو یا سیسی یا پھر لبنان میں ایرنی گروپ۔ آپ ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ایک ہو جائیں۔ یہ اپنی سازشوں سے امت کو اور اس کی وحدت کے خواب کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی پالیسی بدستور یہی ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے ذریعے اور انہی کے مال اور اسلحے سے ان کو مارا جائے۔ کیا کوئی سننے والا اور بیدار شخص ہے جو بات سنے اور عمل کرے؟
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ﴾
"اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہارے لیے زندگی ہے یاد رکھو اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف تمہیں جا نا ہے"
(الانفال:24)۔
مرکزی میڈیا آفس حزب التحریر