Karachi unrest
بسم الله الرحمن الرحيم
Policy regarding
February 2013, RabiulAwwal 1434 AH
Hizb ut-Tahrir Wilayah
A. PREAMBLE:
B. POLITICAL CONSIDERATIONS: Crippling
B1 Democracy in reality only secures the interests of those in power, as they decide what is right and wrong for everyone else. So, on the one hand, it leaves the entire population in neglect, immersed in problems. On the other hand it gives those in power protection for their usurping of the rights of others or other criminal actions. In
B2 The need for people to group together, especially ethnic minorities, is also a trait common in democracy because the needs of the majority factions are given preference over the minorities. These ethnic groups fight with other groups for rights and share of state's attention and revenues. This encourages and fans animosity between different citizens of the state consolidating divisions amongst the society. And
B3.
C LEGAL INJUCTIONS: Ending strife, consolidating
C1. Like the troubled and divided people of Yathrib that only saw peace and prosperity when they embraced Islam and became Madinah, the first Islamic state,
As Hizb ut-Tahrir has declared in its Introduction to the Constitution, article 7, “The State implements the Islamic Shari’ah upon all those who hold the Islamic citizenship, with no difference between Muslims and non-Muslims as follows: (a) All the rules of Islam will be implemented upon the Muslims without any exception. (b) The non-Muslims will be allowed to follow their beliefs and worships within the scope of the general system. ”
C2 In the Khilafah political parties will be established on the basis of Islam and not on ethnic grounds. Political parties and individuals as well as government officials will not be allowed to have connections with foreign diplomats. All embassies and consulates of hostile kafir countries would be closed.
As Hizb ut-Tahrir has declared in its Introduction to the Constitution, Article 21, “The Muslims have the right to establish political parties in order to account the rulers or to reach the rule through the Ummah on the condition that their basis is the Islamic ‘Aqeedah and that the rules they adopt are Shari’ah rules. The formation of a party does not require any permission. Any group formed on an un-Islamic basis is prohibited.”
C3 The dominate atmosphere within society will be that which is common to all the ethnic groupings of
Note: Please refer to the following articles of Hizb ut-Tahrir's “Introduction to the Constitution,” for the complete evidences from Quran and Sunnah: 7, 8 and 21.
D POLICY: Raising
D1. The comprehensive implementation of Islam which is what is common to all Muslims, will bring harmony amongst the people and allow
D2. Political parties will be allowed as long as they adhere to Islam and thus do not sow the seeds of tension on lines of ethnicity. Their members will not be in contact with foreign diplomats and the diplomatic missions of hostile countries will be closed
Hizb ut-Tahrir 23 RabiulAwwal 1434AH
Wilayah
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کراچی کی خراب صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی
ربیع الاول 1434ہجری،بمطابق فروری 2013
حزب التحریر ولایہ پاکستان نے دنیا کے تیسرے بڑے شہر کراچی کی مسلسل خراب ہوتی صورتحال کی بہتری کے لیے پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position"جاری کی ہے۔
ا)مقدمہ: کراچی ایک سیاسی، نظریاتی اور معاشی طاقت کا مرکز بننے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن ایک کے بعد دوسرے امریکی ایجنٹ حکمران نے ایک پالیسی کے تحت کراچی کواس کے کردار کی ادائیگی سے روک رکھا ہے۔
کراچی جس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا شہر، پاکستان کا سب سے بڑا شہر، پاکستان کا سابق دارلحکومت اور ایک ساحلی شہر ہے جس کے پاس دو بندرگاہیں ہیں۔ تقریباً ہر دس پاکستانیوں میں سے ایک کا تعلق کراچی سے ہے۔ اس شہر میں پشاور اور کابل سے بھی زیادہ پشتون مسلمان بستے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ اور پنجابی مسلمان بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔ کراچی کی آبادی کا بڑا حصہ اردو بولنے والے، مہاجر، مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے جو تقسیم ہند کے وقت شمالی ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پانچ سو سال سے بھی زائد عرصے تک یہ اردو بولنے والے مسلمان برصغیر میں اسلامی حکومت میں اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ اس کے علاوہ برصغیر پر دو سو سالہ برطانوی راج کے خلاف برپا ہونے والی مزاحمت میں بھی اہم ترین کردار ادا کرتے رہے۔ لہذا کراچی کے مسلمانوں کا نہ صرف پورے پاکستان سے قدرتی رابطہ اور تعلق ہے بلکہ ان کا ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں سے بھی تعلق اور روابط ہیں۔ ایک طرح سے کراچی قدرتی طور پر پورے پاکستان کو سیاسی و نظریاتی طاقت فراہم کرتا ہے۔ کراچی میں بندرگاہیں بھی ہیں جو اس خطے کو مشرق وسطی کے مسلم علاقوں سے جوڑتی ہیں اور پاکستان کے تمام علاقوں کی معاشی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صنعتوں کا ایک تہائی کراچی میں واقع ہے اور اس کی معیشت بہت متحرک اور وسیع ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے کراچی کو اسلام کی قوت سے محروم کر کے اس خطے میں کراچی کو اس کے قدرتی کردار کی ادائیگی سے روکا ہے۔ ایجنٹ حکمرانوں نے اس شہر میں لسانی اور فرقہ وارانہ تقسیم پیدا کی اور مسلسل فسادات کے ذریعے اس کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حکمرانوں کے انتہائی منفی کردار کے باوجود کراچی نے ہر اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے جو اس خطے کے مسلمانوں کے لیے انتہائی اہم تھیں، چاہے ہندوستان سے جنگ ہو یا اسلامی تحریکوں کی پرورش اور ان کو پروان چڑھانا یا ملک میں آنے والے زلزلوں اور سیلابوں کے دوران اپنے بھائیوں کی بھر پور مدد و معاونت ہو یا رفاحی کاموں کے لیے سرمائے کی فراہمی، ہر اہم موقع پر اس شہر اور اس کے رہنے والوں نے اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے۔
ب) سیاسی قدرو اہمیت: کراچی کو مفلوج کرنے کا مقصد
ب1۔ جمہوریت حقیقت میں صرف ان لوگوں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے جو اقتدار میں ہوں کیونکہ وہی اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ باقی تمام لوگوں کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ ایک طرف جمہوریت ایک پوری آبادی سے لاتعلق ہو جاتی ہے اور انھیں مسائل کی دلدل میں دھکیل دیتی ہے جبکہ دوسری جانب جمہوریت اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو دوسروں کے حقوق کو غصب اور ان کے خلاف جرائم کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر اور گروہوں کو سیاسی جماعتوں کے ذریعے ر یاست کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ پشت پناہی ریاستی اداروں پر اثرورسوخ کے ذریعے کی جاتی ہے جیسے پولیس اور عدلیہ پر اثر انداز ہوکر، اسمبلیوں کے ذریعے قوانین بنوا کر اور انتظامی احکامات کے اجرأ کے ذریعے۔ جمہوریت طاقتور گروہوں، قانون سازوں اور حکومتی مشینری کے درمیان تعلق کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لہذا اس حقیقت میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ کراچی میں جرائم پیشہ عناصر مکمل تحفظ کے ساتھ کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں۔
ب2۔ جمہوری نظام میں لوگوں کا خصوصاً نسل کی بنیاد پر جماعتیں تشکیل دینا جمہوریت کا اہم مظہر ہے کیو نکہ اکثریتی گروہوں کی ضروریات کو اقلیتی گروہوں کی ضروریات پر فوقیت دی جاتی ہے۔ پھر یہ لسانی گروہ اپنے حقوق اور ریاست کے مال میں اپنے حصے کے حصول کے لیے دوسرے گروہوں سے لڑتے ہیں۔ یہ صورتحال ریاست کے مختلف شہریوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دیتی ہے اور معاشرے میں اس تقسیم کو قوت فراہم کرتی ہے۔ اور کراچی کئی دہائیوں سے لسانی نفرتوں کی آگ میں جل رہا ہے۔
ب3۔ امریکہ اور سیاسی و فوجی قیادت میں موجود اس کے ایجنٹ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کراچی مسلسل اس دشمنی کی آگ میں جلتا رہے۔ وہ ناصرف موجودہ استعماری جمہوری نظام کی بقأ کو یقینی بناتے ہیں بلکہ براہ راست رابطہ کر کے لسانی جماعتوں کو قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کراچی میں موجود لسانی گروہوں کو استعمال کر کے بلوچستان تک میں لسانی فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے میں امریکی قونصلیٹ نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو کراچی تک پھیلانے کی تیاریاں کر لی ہیں۔ اس طرح استعماری طاقت شہر میں افراتفری پیدا کرتی ہے اور پھر اپنے مفادات کو درپیش خطرات کو ختم کرتی ہے جیسے ان مخلص سیاست دانوں کا قتل جو مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔
د) قانونی ممانعت: دشمنی کا خاتمہ اور کراچی کے مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد و یگانگت
د1۔ جس طرح یثرب کے لوگ تقسیم اور مصیبت زدہ تھے اور انھوں نے صرف اسی صورت میں امن اور خوشحالی کا منہ دیکھا جب انھوں نے اسلام قبول کیااور یثرب کومدینے میں تبدیل کر کے پہلی اسلامی ریاست قائم کی، بالکل اسی طرح کراچی بھی صرف اسلام کی حکمرانی میں ہی امن اور خوشحالی کا دور دیکھ سکتا ہے۔ تمام مسلمانوں کے درمیان واحد مشترک چیز اسلام ہے چاہے وہ کسی بھی نسل یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ شریعت وہ قانون ہے جو ان کے عقیدے، اسلام پر مبنی ہے۔ اسلام احکامات اور حرمات کا مجموعہ ہے جس کو اللہ نے قرآن اور سنت کی شکل میں نازل کیا۔ خلافت حکمران کو رعایا پر فوقیت نہیں دیتی اور نہ ہی ایک لسانی یا مسلکی گروہ کو کسی دوسرے لسانی یا مسلکی گروہ پر فوقیت دیتی ہے۔ جمہوریت میں صرف ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کے مرکز ہوتے ہیں، جہاں حکمران رہتے ہیں یا وہ لوگ رہتے ہیں جن کی حمائت کی وجہ سے حکمرانوں کا اقتدار قائم ہوتا ہے۔ لیکن خلافت پورے معاشرے کے معاملات کی نگہبانی اس طرح سے کرتی ہے جیسا کہ کی جانی چاہیے۔ لہذا خلافت نہ صرف کراچی سمیت تمام نظر انداز کیے گئے بڑے شہروں کی ترقی کو یقینی بنائے گی بلکہ چھوٹے شہروں اور گاوئں دیہاتوں کی ترقی کو بھی یقینی بنائے گی جس کے نتیجے میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کے حصول کے لیے بڑے شہروں کی جانب ہجرت کے سلسلہ میں کمی واقع ہو گی بلکہ شہروں میں آبادی کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کا بھی خاتمہ ہوگا۔
جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 7 میں اعلان کیا ہے کہ "ریاست ان تمام افراد پر جو اسلامی ریاست کے شہری ہوں مسلم ہوں یا غیر مسلم حسب ذیل طریقے سے اسلامی شریعت نافذ کرے گی:
ا) مسلمانوں پر بغیر کسی استثناء کے تما م اسلامی احکامات نافذکرے گی۔
ب) غیر مسلموں کو ایک عام نظام کے تحت ان کے عقیدے اور عبادت کی آزادی دی جائے گی۔
د2۔ خلافت میں سیاسی جماعتیں کسی لسانی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام کی بنیاد پر قائم ہوسکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں سمیت کسی بھی فرد یا حکومتی اہلکار کو غیر ملکی سفارت کاروں سے رابطہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کو بند کر دیا جائے گا۔
جیسا کہ حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ 21 میں اعلان کیا ہے کہ "حکام کے احتساب یا امت کے ذریعے حکو مت تک پہنچنے کے لیے سیاسی پارٹیاں بنا نے کا حق مسلما نوں کو حاصل ہے بشرطیکہ ان پارٹیوں کی بنیاد اسلا می عقیدہ ہو اور جن احکا مات کی یہ پارٹیاں تبنی کرتی ہوں وہ اسلامی احکاما ت ہوں۔ کوئی پارٹی بنانے کے لیے کسی (N.O.C)اجا زت کی ضرورت نہیں، ہاں ہر وہ پارٹی ممنو ع ہوگی جس کی اساس اسلام نہ ہو۔
د3۔ معاشرے کی عمومی فضأ اسلام کی بنیاد پر ہوگی جو تمام لسانی اکائیوں کے درمیان مشترک رشتہ ہے۔ تعلیمی نظام، میڈیا، حکمرانوں کا طرزعمل اور امت جو ان کا احتساب کرے گی، ان سب کی بنیاد اسلامی عقیدہ ہوگی جس کے نتیجے میں لسانیت پر مبنی پست سوچ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اگر چہ علاقائی زبانیں موجود ہوں گی لیکن ریاست کی سرکاری زبان صرف عربی ہوگی جوکہ قرآن کی زبان ہے، اللہ کے رسولﷺ کی زبان ہے اور قانون کی زبان ہے۔ اس کے نتیجے میں زبان کی بنیاد پر اس کشیدگی کا خاتمہ ہو جائے گا جس کا پاکستان کو اس کے قیام کے وقت سے سامنا ہے۔ ریاست خلافت کے دستور کی دفعہ8 میں لکھا ہے کہ "عر بی زبان چونکہ اسلام کی زبان ہے، اس لیے ریاستی زبان صرف عربی ہی ہوگی"۔
نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی سے متعلق دفعات کو نافذ کیا جائے گا۔ ان دفعات کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات 21 ,8 ,7 سے رجوع کریں۔
ج) پالیسی: کراچی کو اس کی مکمل استعداد کا حامل بنایا جائے گا
ج1۔ اسلام کا مکمل نفاذ، جوکہ تمام مسلمانوں کے درمیان ایک مشترک رشتہ ہے، لوگوں کے درمیان ہم آہنگی لائے گا اور کراچی تمام لسانی نفرتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے اسلام کے زیر سایہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔ خلافت اپنے تمام شہریوں کے معاملات کا، بلا امتیاز رنگ، نسل، مذہب، مسلک یا جنس، خیال اور تحفظ کرے گی۔
ج2۔ سیاسی جماعتیں اسی وقت تک کام کرسکیں گی جب تک وہ اسلام کے اصولوں کو اپنائیں گی اور امت کے درمیان لسانی نفرتوں کے بیج نہیں بوئیں گی۔ ان کے اراکین غیر ملکی سفارت کاروں سے کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھ سکیں گے اور تمام کافر حربی ممالک کے سفارت خانوں کو بند کر دیا جائے گا۔
23 ربیع الاول 1434 حزب التحریر
4 فروری 2013 ولایہ پاکستان