Electricity Crisis
بسم الله الرحمن الرحيم
Policy regarding Electricity crisis
January 2013, RabiulAwwal 1434 AH
Hizb ut-Tahrir Wilayah
A. PREAMBLE: Electricity is unaffordable and unavailable because of capitalism's privatization concept, as safeguarded by democracy
Through democracy's implementation of capitalism, the government is responsible for
B. POLITICAL CONSIDERATIONS: Capitalism's control of electricity only benefits the colonialists and the current rulers and deprives the Ummah
B1. Of
B2. Regarding thermal generation, the Ummah possesses over half of the world's proven oil reserves and over forty per cent of the world's proven gas reserves.
B3. Regarding developing other forms of electricity generation to meet future short falls, such as solar, tidal and wind generation, the Islamic Ummah possess brilliant sons and daughters who are more than capable to deliver results.
B4. However, by privatizing these abundant resources foreign colonialist companies benefit as well as local companies which are from the entourage of the rulers or the rulers themselves.
B5. The current rulers and their colonialist masters benefit from the people being immersed in seas of economic miseries as it dampens their ability to rise up and depose the current corrupt order. This is the meaning of what Donald Rumsfeld, former US Defence Secretary, termed “creative chaos.”
C LEGAL INJUCTIONS: Securing the benefit of energy and fuel for the people
C1. Islam will end the capitalist economy and establish an Islamic one. As a system Islam ensure the distribution of wealth and one of its mechanisms is the public ownership of electricity resources as well as coal, oil and gas. As such these resources are neither owned by the state nor individuals. Instead, the state administers this resource to ensure that its benefit is used for all the citizens, regardless of race, color, school of thought and religion.
As Hizb ut-Tahrir has declared in its Introduction to the Constitution, “Islam assigns energy resources as public property. Neither the state nor individuals can usurp its benefit for themselves. Instead Islam ensures that the entire public benefits from the wealth... So, the Khilafah will ensure that the public benefit from energy resources, providing cheap energy to fuel agriculture and industry and affordable domestic rates.”
C2 The Khilafah will abolish taxes upon power and fuel which have further greatly inflated their prices. It will charge only to cover their production and distribution costs, if needed, and any profit from sales to non-hostile non-Muslim states will be put to use for taking care of the public's needs.
As Hizb ut-Tahrir has declared in its Introduction to the Constitution, “Under the capitalist system, citizens face a great burden of taxation. Income tax eats into the people’s salaries, general sales tax makes buying essential food and medicine a burden whilst taxation on fuel and energy chokes industrial and agricultural production. Instead, Islam has its own unique system of revenue collection, including revenue from public properties, such as gas, and agricultural production, such as kharaj, and industrial manufacture through Zakah on goods. So, the Khilafah will be able to generate large revenues whilst encouraging vigorous economic activity.”
C3 Islam's electricity policy will contribute to a massive industrialization of
As Hizb ut-Tahrir has declared in its Introduction to the Constitution, “Firstly, factories that are related to the assets of the public property such as the gas extraction and refinery plants. Since the assets of the public property are a property for all Muslims, so are the factories that are involved in their extraction and refinery. The State establishes them on behalf of the Muslims. Secondly, factories related to heavy industry and weapons manufacture. Individuals may own such factories, but since such industries require huge funds the
Note: For the relevant articles in Hizb ut-Tahrir’s Introduction to the Constitution, that has been prepared for immediate implementation in the Khilafah please refer to the following articles for the complete evidences from Quran and Sunnah: 137, 138, 139 and 140
D POLICY: Fuelling the rise of the world's leading state, the Khilafah
D1. The return of gas, oil, coal and electricity to public ownership will result in affordable and available electricity.
D2. The abundance of power is essential to the development of a strong industrial base, a necessity for any state aspiring to lead the world
D3. Islam's unique concepts over power and energy will be a shining example to a world exploited and deprived by capitalism.
Hizb ut-Tahrir 12 RabiulAwwal 1434AH
Wilayah
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بجلی کے بحران کے حوالے سے پالیسی
ربیع الاول 1434، بمطابق جنوری 2013
ولایہ پاکستان نے ملک میں جاری بد ترین بجلی کے بحران کے حوالے سے ایک پالیسی دستاویز "Publicized Policy Position" جاری کی ہے ۔اس بحران نے جہاں ملک کی صنعت اور زراعت کے شعبے کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے وہیں روز مرہ کی زندگی کو بھی شدید متائثر کیا ہے۔
ا) مقدمہ: جمہوریت سرمایہ دارانہ نظام میں نجکاری کے تصور کی حفاظت کرتی ہے جس کی بنا پر بجلی ناپید اور مہنگی ہو گئی ہے۔
پاکستان میں حکومت بجلی کے بحران کی ذمہ دار ہے کیونکہ وہ جمہوریت کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو نافذ کر رہی ہے۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام نجکاری کے ذریعے اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے وسائل سے صرف چند مقامی اور غیر ملکی لوگ فائدہ اٹھائیں جبکہ عوام اس سے محروم رہیں۔ نجکاری کے نتیجے میں بجلی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے تا کہ نجی مالکان اپنے منافع میں بے تحاشا اضافہ کر سکیں۔ مثال کے طور پر ورلڈ بنک نے بجلی کی قیمتوں میں سال 2000 سے 2004 تک اپنی نگرانی میں اضافہ کروایا اور جس میں آج کے دن تک مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں لوگ اب سردیوں کے دنوں میں بجلی کا جتنا بل دیتے ہیں اتنا بل بڑے پیمانے پر بجلی کے کارخانوں کی نجکاری سے پہلے گرمیوں کے اُن دنوں میں جمع کروایا کرتے تھے جن دنوں میں بجلی کا استعمال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا ایک طرف نجی کمپنیاں بجلی کے پیداواری یونٹس کی مالک ہونے کی بنا پر اپنی دولت میں بے تحاشا اضافہ کرتی ہیں وہیں باقی معاشرہ مسلسل مہنگی ہوتی بجلی کی بنا پر اقتصادی بدحالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں تک بجلی کی کمی کا تعلق ہے تو حکومت خود چند لوگوں کے فائدے کے لیے اربوں روپے کے قرضوں کی دلدل میں جا گری ہے۔ اس لیے نجی کمپنیاں اپنے منافع کی شرح کو برقرار رکھنے کے لیے بجلی کی پیداوار میں کمی کر دیتی ہیں کیونکہ انھیں اتنی رقم نہیں دی جاتی جتنا کہ انھیں دینے کے معاہدے کیے گئے ہیں۔ "گردشی قرضے"(circular debt) کی وجہ سے بجلی کی پیداوار دس ہزار میگاواٹ یا اس سے بھی کم رہ جاتی ہے جبکہ بجلی کی پیداوار کی گنجائش تقریباً بیس ہزار میگاواٹ ہے جو پانی کی کمی کی صورت میں تقریباً پندرہ ہزار میگاواٹ ہو جاتی ہے۔ یہ پیداواری صلاحیت ہماری طلب کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ سردیوں میں بجلی کی طلب تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار جبکہ گرمیوں میں ساڑھے سترہ ہزار میگاواٹ ہوتی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گرمیوں میں آٹھ سے بارہ گھنٹوں جبکہ سردیوں میں چھ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ کی اصل وجہ استعداد سے کم بجلی پیدا کرنا ہے۔ یہ تمام صورتحال صرف اس وجہ سے ہے کہ بجلی کو عوام کا حق قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کو کاروبار کرنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
ب) سیاسی اہمیت: سرمایہ دارانہ نظام کا بجلی کے پیداواری یونٹس پر کنٹرول کا فائدہ صرف استعماری طاقتوں اور موجودہ حکمرانوں کو حاصل ہوتا ہے جبکہ عوام اس سے محروم رہتے ہیں
ب1۔ پاکستان میں بجلی 65 فیصد تھرمل ذرائع یعنی فرنس آئل اور گیس سے، 33 فیصد ہائیڈل یعنی پانی کے ڈیموں کے ذریعے اور 2 فیصد نیوکلیئر یعنی ایٹمی ری ایکٹروں کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان کی بجلی کی پیداواری صلاحیت اتنی ہے کہ پورا سال بجلی کی موجودہ طلب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔
ب2۔ جہاں تک تھرمل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے تو مسلم امہ دنیا کے 50 فیصد سے زائد تیل اور 45 فیصد گیس کے ذخائر کی مالک ہے۔ پاکستان میں دنیا کے چندبڑے کوئلے کے ذخائر میں سے ایک ذخیرہ، تھر میں واقع ہے۔
ب3۔ جہاں تک مستقبل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کا تعلق ہے جیسا کہ سورج کی روشنی، ہوا اور پانی کی لہریں، تو امت میں ایسے بے شمار بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو ان وسائل کو استعمال میں لا کر امت کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ب4۔ ان عظیم ذخائر کی نجکاری کے ذریعے مقامی اور غیر ملکی استعماری کمپنیاں بھر پور فائدہ اٹھاتیں ہیں۔ یہ کمپنیاں یا تو حکمرانوں کی حمائت سے کام کرتی ہیں یا براہ راست حکمرانوں کے لیے کام کرتیں ہیں۔
ب5۔ لوگوں کا معاشی بد حالی میں مبتلا ہو جانا موجودہ حکمرانوں اور ان کے استعماری آقاوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں لوگوں میں کرپٹ حکمرانوں کے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور انھیں اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت میں کمی ہو جاتی ہے۔
د) قانونی ممانعت: عوام کے مفاد میں توانائی کے ذخائر سے حاصل ہونے والے فوائدکا تحفظ
د1۔ خلافت سرمایہ دارانہ معاشی نظام کا خاتمہ کرے گی اور اسلام کے معاشی نظام کو نافذ کرے گی۔ اسلام کا نظام دولت کی تقسیم کو یقینی بناتا ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کا ایک طریقہ بجلی کے پیداواری یونٹس کے ساتھ ساتھ کوئلہ، تیل اور گیس کو عوامی اثاثہ قرار دینا ہے۔ یہ اثاثے نہ تو نجی ملکیت میں جاسکتے ہیں اور نہ ہی ریاستی ملکیت میں۔ ان اثاثوں کا انتظام ریاست سنبھالتی ہے تا کہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے فوائد، بلا امتیاز رنگ، نسل، مسلک اور مذہب کے، ریاست کے تمام شہریوں تک پہنچیں۔
حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور میں اعلان کیا ہے کہ "اسلام توانائی کے وسائل کو عوامی اثاثہ قرار دیتا ہے۔ نہ ریاست اور نہ ہی کوئی نجی کمپنی ان سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ بلکہ اسلام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام لوگ اس دولت سے فائدہ اٹھائیں۔ لہذا خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ لوگ توانائی کے ان وسائل سے فائدہ اٹھائیں اور زراعت،صنعت اور عام شہریوں کو انتہائی کم نرخوں پر بجلی فراہم ہو"۔
د2۔ خلافت بجلی، پیٹرول اور گیس پر ٹیکسز کا خاتمہ کر دے گی جس کے نتیجے میں ان کی قیمت میں مزید کمی ہو جائے گی۔ ان چیزوں کی صرف اس قدر قیمت لی جائے گی جس کے ذریعے ان کی پیداوار اورانھیں عوام تک پہنچانے پر اٹھنے والی لاگت آئی ہوگی۔ غیر مسلم غیر حربی ممالک کو ان وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن کو لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا۔
حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور میں اعلان کیا ہے کہ "سرمایہ دارانہ نظام کے تحت عوام ظالمانہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے پس رہے ہیں۔ انکم ٹیکس ان کی تنخواہیں کھا لیتا ہے، جنرل سیلز ٹیکس کھانے پینے اور ادویات جیسی ضروری اشیا کی خریداری کو مشکل بنا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایندھن اور توانائی کے ذرائع پر بھاری ٹیکس نے پاکستان کی صنعتی اور زرعی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اسلام کا ایک اپنا منفردمحصولاتی نظام ہے۔ اس میں عوامی اثاثوں جیسے گیس سے حاصل ہونے والی آمدنی، زرعی پیداوار پر خراج اور صنعتوں کے ذریعے پیدا ہونے والی اشیأ پر زکوة شامل ہے۔ لہذا خلافت اس قابل ہو گی جہاں زبردست معاشی ترقی کے اہداف کو حاصل کرسکے وہیں بہت بڑی تعداد میں ریاست کے لیے آمدن کا زریعہ بھی پیدا کرسکے گی"۔
د3۔ اسلام کی بجلی کی پالیسی خلافت کے زیر سایہ پاکستان میں زبردست صنعتی ترقی کا باعث بنے گی۔
حزب التحریر نے ریاست خلافت کے دستور میں اعلان کیا ہے کہ "اول: وہ فیکٹریاں جو عوامی اثاثہ جات سے متعلق ہیں مثلاً گیس اور تیل صاف کرنے والے پلانٹ۔ چونکہ عوامی اثاثہ جات تمام عوام کی اجتماعی ملکیت ہوتے ہیں اس لیے یہ پلانٹ بھی عوام کی مشترکہ ملکیت ہوں گے اور ریاست عوام کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ان کا بندوبست کرے گی۔ دوم: وہ کارخانے جن کا تعلق بھاری صنعتوں اور اسلحہ سازی سے ہے۔ ریاست کا کوئی شہری بھی بھاری صنعتوں سے متعلق کارخانہ لگا سکتا ہے، لیکن چونکہ ایسے کارخانوں کے قیام کے لیے کثیرسرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا خلافت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان کے لیے بھاری سرمایہ کاری کرے۔ صرف بھاری صنعتوں کی موجودگی میں ہی ایک فوج مضبوط اور طاقت ور ہو سکتی ہے جو انجن سازی اور مشین سازی کی قابلیت رکھتے ہوں"۔
نوٹ: خلافت کے قیام کے فوراً بعد اس پالیسی کو نافذ کیا جائے گا۔ اس پالیسی کے قرآن و سنت سے تفصیلی دلائل جاننے کے لیے حزب التحریر کی جانب سے جاری کیے گئے ریاستِ خلافت کے دستور کی دفعات: 137, 138, 139, 140 سے رجوع کریں۔
ج) پالیسی: دنیا کی صف اول کی ریاست، خلافت کو قائم کرنے کی جدوجہد
ج1۔ تیل، گیس، کوئلہ اور بجلی کے یونٹس کو عوامی اثاثہ قرار دے دیا جائے گا جس کے نتیجے میں سستی بجلی میسر ہو گی۔
ج2۔ سستی بجلی کی فراہمی مضبوط بنیادوں پر صنعتی شعبے کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے بلکہ ایک ریاست کو دنیا کی صف اول کی ریاست بنانے کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔
ج3۔ توانائی کے حوالے سے اسلام کی منفرد پالیسی سرمایہ دارانہ نظام سے تنگ آئی ہوئی دنیا کے لیے ایک روشن مثال ہوگی۔
12 ربیع الاول 1434 حزب التحریر
24 جنوری 2013 ولایہ پاکستان